Man Shab e Siddique Ra Deedum b’Khawab Lyrics
Man Shab e Siddique Ra Deedum b’Khawab Lyrics In Urdu
Allama Iqbal
ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابو بکر صدیق کو دیکھا
آپ کے راستے کی خاک سے میں نے خواب میں پھول چنے
آپ سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہمارے مولا ہیں
آپ ہمارے طور(نبی کریم ؐ ) کے پہلے کلیم ہیں
میں نے آپ سے کہا کہ آپ عشق کے خاصوں سے بھی خاص ہیں
آپ کا عشق دیوان عشق کا پہلا شعر ہے
آپ کے ہاتھوں سے ہمارے کاموں کی بنیاد مضبوط ہوئی
آپ ہمارے دکھ درد کا علاج فرمائیں
حضرت صدیق نے فرمایا کہ کب تک اُمت حرص و ہوس میں مبتلا رہے گی
اس اُمت کو سورہ اخلاس سے چمک دمک حاصل کرنی چاہیے
یہ جو ہزاروں سینوں میں ایک ہی طرح سے سانس چل رہا ہے
یہ توحید کے رازوں میں سے ایک راز ہے
اس جہاں میں تو اس کے رنگ کو اختیار کر کے اس کی مانند ہو جا
اس جہاں میں اُس کے جمال کا عکس بن جا
وہ ذات کہ جس نے تیرا نام مسلماں رکھا ہے
وہ تجھے دوئی سے وحدت کی طرف لائی ہے
تو خود کو ترک اور افغان کہلانا پسند کرتا ہے
افسوس تجھ پر کہ تو جو تھا اب نہیں ہے
تو اس قوم کو اتنے سارے ناموں سے نجات دلا
تو صراحی سے موافقت کر اور پیالوں سے جان چھڑا
اے کہ تو (قوم) اتنے سارے ناموں کی وجہ سے رسوا ہو گئی ہے
اور اپنے درخت سے کچے پھل کی طرح گر گئی ہے
تو توحید سے تعلق جوڑ اور دوئی کو رخصت کر دے
اپنی وحدت کو اس طریقے پر ٹکڑے ٹکڑے نہ کر
اے ایک کے پوچنے والے اگر تو تو ہے
تو کب تک دوئی کا سبق پڑھتا رہے گا
تو نے اپنا دروازہ اپنے اوپر خود بند کر لیا ہے
تو جو زبان سے کہتا ہے دل سے بھی ادا کر
تو نے ایک ملت کی سو ملتیں بنا لیں ہیں
اپنے قلعے پر خود ہی شب خوں مارا ہے
ایک ہو جا اور توحید کا اظہار کر دے
اپنے عمل سے غائب کو موجود کر دے
ایمان کی لذت عمل کرنے سے بڑھتی ہے
مردہ ہے ایمان جس میں عمل نہ ہو
Man Shab e Siddique Ra Deedum b’Khawab Lyrics In .....
من شبے صدیق را دیدم بخواب
گل زِ خاک راہِ اُو چیدم بخواب
آں امن الناس بر مولائے ما
آں کلیم اوّل سینائے ما
ہمت اُو کشت ملت را چو ابر
ثانی اسلام و غار و بدر و قبر
گفتمش اے خاصہَ خاصانِ عشق
عشقِ تو سرِ مطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کار ما
چارہ ے فرما پے آزارِ ما
گفت تاکہ ہوس گردی اسیر
آب و تاب از سورہ اخلاص گیر
ایں کہ در صد سینہ پیچد یک نفس
سرے از اسرارِ توحید است و بس
رنگ اُو برکن مثالِ او شوی
در جہاں عکس جمال او شوی
آنکہ نامِ تو مسلماں کردہ است
اذ دوئی سوے یکی آورہ است
خویشتن را ترک و افغان خواندہ ای
وائے بر تو آنچہ بودی ماندہ ای
وارہاں نامیدہ را از نامہا
ساز با خم در گذر از جامہا
اے کہ تو رسواے نام افتادہ عی
از درخت خویش خام افتادہ ای
با یکی ساز از دوئی بردار رخت
وحدت خود را مگرداں لخت لخت
اے پرستار یکی گر تو توئی
تا کجا باشی سبق خوانِ دوئی
تو درِ خود را بخود پوشیدہ ای
در دل آور آنچہ بر لب چیدہ ای
صد ملل از ملتے انگیختی
برحصارِ خود شبخوں ریختی
یک شو و توحید را مشہود کن
غائبش را از عمل موجود کن
لذتِ ایماں فزاید در عمل
مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل
0 Comments